18 اگست 2025 - 05:21
ہمیں تیسری فریق کو ایران اور عراق کی سلامتی میں خلل نہیں ڈالنے دینا چاہئے، ڈاکٹر لاریجانی

ہمارے ملک کے قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری نے ایران اور عراق کے درمیان سیکورٹی معاہدے پر دستخط کا حوالہ دیتے ہوئے ایک انٹرویو میں کہا: "ہمیں تیسری پارٹی کے ممالک کو دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور سلامتی میں خلل ڈالنے نہیں دینا چاہئے اور نہ ہی کسی ملک کی سرزمین کو دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے دینا چاہئے۔"

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری ڈاکٹر علی لاریجانی، نے قومی ٹیلی وژن کے چینل 2 کے پروگرام "تہران، تل ابیب" میں نئے عہدے پر پہلی بار عراق اور لبنان کے دورے کے بارے میں تفصیلات بیان کیں اور خطے کی صورتحال کے بارے میں کہا:

• بلا شبہ علاقائی مسائل ملک کے قومی مفادات اور سلامتی کے لئے اہم مسائل رہے ہیں اور ہیں۔ درحقیقت قومی سلامتی میں اسلامی جمہوریہ کی حکمت عملی علاقائی مسائل پر توجہ دینا ہے۔

• قومی سلامتی کے معاملات میں دو اہم خطوط اور نقطہ ہائے نظر کی پیروی کی جاتی ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل آج واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ ہم طاقت کے ذریعے امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یا تو ہتھیار ڈال دینا ہوں گے یا لڑنا ہوگآ، اور اس خیال کا نتیجہ خطے کا بگاڑ ہے۔ اس کی عملی مثال ہم شام میں دیکھ رہے ہیں۔

• دوسرا نظریہ یہ ہے کہ ہم ممالک کی شراکت سے پائیدار سلامتی حاصل کرنا چاہتے ہیں، جس میں تمام ممالک طاقتور ہوں، اور ایران اس نظریہ پر عمل کرتا ہے۔ اس نظریے کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کا طرز عمل ایک مختلف معنی اختیار کرتا ہے اور ہم خطے میں خلل ڈالنے کے بجائے استحکام چاہتے ہیں۔ اس نظریے کی ایک مثال وہ سیکورٹی معاہدہ ہے جس پر ہم نے اس سفر کے دوران عراق کے ساتھ دستخط کیے۔ اس معاہدے میں، ہم مل کر ایک مستحکم سیکورٹی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

• عراق کے دورے اور تہران اور بغداد کے درمیان سیکورٹی معاہدے پر دستخط کے بارے میں کہنا چاہئے کہ ایران عراق سیکورٹی معاہدے کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ دونوں ممالک پرعزم ہیں اور افراد، تحریکوں اور تیسرے ممالک کو دونوں ممالک کی ہم آہنگی اور سلامتی میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دیتے اور یہ کہ ایک ملک کی سرزمین دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہو یا یہ ایک ملک دوسرے سلامتی کے مسائل میں مداخلت نہ کرے۔

• دورہ عراق کے دوران میں نے سیکورٹی کے مسائل کے علاوہ ثقافتی اور اقتصادی مسائل کو فروغ دینے پر عراقی حکام کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔

• دو عشرے پہلے کے مقابلے میں، خطے میں موجودہ سیکیورٹی کے ماحول، کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران کے خلاف اسرائیلی-امریکی جنگ کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ایک نقطہ نظر سے یہ واقعات سلسلہ وار صورت میں تھے، یعنی ان کا طرز عمل ہمیشہ خطے میں شرانگیزی مبنی رہا ہے۔

• اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا تھا کہ 'داعش کو ہم نے خود بنایا ہے'۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ کیونکہ وہ دو ملکوں ـ ایران اور عراق ـ کے لئے مسائل پیدا کرنا چاہتے تھے یا شیعہ اور سنی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا چاہتے تھے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان ملکوں کے عوام اور دو ملکوں کے اندر کے شیعہ اور سنی عوام صدیوں سے ایک ساتھ  رہ رہے ہیں، لیکن وہ اسے اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے، کہ انتشار اور تقسیم پیدا کر سکیں۔ بلاشبہ اس معاملے میں خطے کے کچھ ممالک بھی ملوث تھے لیکن اس بار جو تصادم ہؤا وہ پہلے جیسا نہیں تھا۔ ہم بالکل آمنے سامنے آئے۔ امریکی ہمیشہ خطے کے مسائل اور اقدامات کے پیچھے چھپتے رہے تھے لیکن اس بار وہ خود میدان میں آگئے۔ ان کے وزیر دفاع نے واضح طور پر بمباری کا حکم دیا اور پینٹاگون نے اعلان کیا کہ وہ اس حملے پر 10 سال سے کام کر رہا تھا!

• اس نئے تصادم کے وقت ایران کے تمام لوگوں نے ایک مشترکہ فہم اور مشترکہ ارادہ پا لیا تھا کہ انہیں اسرائیل کے خلاف کھڑا ہونا ہے جو کہ بہت دلچسپ تھا۔ میرے لئے بھی، جب میں کوہ پیمائی کے راستے پر تھا تو مجھے پہچاننے والے کئی مرد و خواتین نے بتایا کہ 'ہم نے بعض مظاہروں میں شرکت کی تھی اور بعض مسائل پر حکومت کے ساتھ اختلاف رکھتے تھے، لیکن جب اسرائیل نے حملہ کیا تو ہم اسلامی جمہوریہ کی پشت پر آگئے، کیونکہ یہ اسرائیل سے لڑنے کا معاملہ تھا اور ہم پیچھے نہیں رہنا چاہتے تھے۔'

• اس کے علاوہ خطے کے بڑے ممالک کے رہنماؤں میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ 'دنیا کے لوگ ایران کی قومی یکجہتی کو سمجھتے ہیں۔' یہ ایک اہم بیان ہے کیونکہ قومی یکجہتی ایک عظیم ثقافتی، سیاسی اور سماجی اثاثہ ہے۔

• ایک اور تازہ واقعہ یہ ہے کہ دشمن کا خیال تھا کہ اسلامی ممالک اپنے بعض اختلافات یا قدامت پسندی کی وجہ سے ایران کی طرف نہیں آئیں گے اور ایران تنہا ہو جائے گا، لیکن اسلامی ممالک، حکومتیں اور قومیں، ایران کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ اور ہاں! مگر، یورپ والے [روایتی طور پر] امریکہ اور اسرائیل کی طرف گئے۔

• ایرانی مسلح افواج نے جس طرح دشمن کا مقابلہ کیا، اس کے بارے میں دشمنوں کا خیال تھا کہ ان کی جنگی صلاحیت لا جواب ہے، لیکن جنگ کے درمیان ایرانی میزائلوں کی بارش نے انہیں مکمل طور پر مایوس اور بے بس کر دیا تھا۔ علاقائی ممالک کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ جنگ کے پہلے دن نیتن یاہو نے انہیں فون کیا اور کہا کہ 'ایران کا کام تمام ہو چکا ہے۔' جنگ کے چوتھے یا پانچویں دن میں نے اس سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ 'اب تمہارا کیا حال ہے؟' تو نیتن یاہو نے کہا: 'ہمیں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔'

• اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لئے ایران کی حکمت عملی اور عسکری نقل و حرکت ایک عظیم کامیابی تھی۔ یقیناً ہماری بھی کمزوریاں تھیں۔ ایران کے اندر دشمنوں کی دراندازی کا مسئلہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ہمارے ہاں کمزوریاں تھیں جو تکلیف دہ تھیں، یعنی کچھ حصوں میں، لیکن ہمارے پاس ہمارے پاس صلاحیتیں بھی ہیں اور ہمیں انہیں ان صلاحیتوں کے موثر حصوں کو دیکھنا چاہئے۔

• ٹرمپ نے کہیں کہا تھا کہ آخری دنوں میں یہ ہمارے اور نیتن یاہو کے لئے جہنم بن چکے تھے، اور میں نے نیتن یاہو کو بچا لیا۔ تاہم ہمیں تکبر سے کام نہیں لینا چاہئے کیونکہ دشمن ان کا مطالعہ کرتا ہے اور نئے طریقے تلاش کرتا ہے اور ہم بھی یہی کچھ کر رہے ہیں اور ہمیں صرف ایک فوجی روش سے کام نہیں کرنا چاہئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha